غزہ کی صورتحال ابتر ہو چکی ہے، جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ عالمی خوراک پروگرام (WFP) نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اگر فوری امداد فراہم نہیں کی گئی تو یہ صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ جنگ کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں خوراک کی فراہمی بند ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
غزہ کی پٹی میں موجودہ حالات کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں کی 90 فیصد آبادی مناسب خوراک حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نہ صرف بزرگوں بلکہ بچوں کے لیے بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جہاں بہت سے بچے فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جس کی وجہ سے عام لوگوں کی قوت خرید متاثر ہو رہی ہے۔
اس بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والی تنظیموں نے اس صورتحال کو “غذائی بحران” قرار دیا ہے۔ عالمی ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ فوری کارروائی نہ کی گئی تو یہ صورتحال قحط میں بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، جنگی حالات اور اقتصادی پابندیاں بھی اس بحران کو exacerbate کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگیوں میں مزید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب، اقوام متحدہ نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں، لیکن ان کی شدت اور مقدار ناکافی ہے۔ اس وقت بنیادی اشیاء کی کمی اور قیمتوں میں اضافے نے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر دیا ہے، خاص طور پر بچوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
غزہ میں غذا کی ترسیل کی بحالی کے لیے عالمی برادری کو مزید مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ، مقامی حکومتوں اور عالمی اداروں کو مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ متاثرہ لوگوں کی مدد کی جا سکے۔
مجموعی طور پر، غزہ میں خوراک کی کمی کے حالات انسانی بحران کی ایک مثال ہیں، جہاں فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر اس مسئلے کو جلد حل نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف وہاں کی موجودہ آبادی بلکہ پورے خطے پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ عالمی اداروں کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بہت اہم ہیں، لیکن ان کی مقدار اور معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ قحط کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔
Sources: Dunya News, DFRAC, Siasat Daily, ARY News, BBC News, CNN.
۔