بھٹو کی بلامقابلہ کامیابی کی خواہش، انتخابی دھاندلی کے الزامات اور وہ غلطیاں جو فوجی بغاوت کا سبب بنیں
7 مارچ 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں عام انتخابات کروائے، مگر انتخابی نتائج پر سیاسی جماعتوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا اور دھاندلی کے شدید الزامات عائد کیے۔ نتیجتاً، صرف چار ماہ بعد، جولائی 1977 میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد بھٹو کے ابتدائی اقدامات
جب بھٹو نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے فوری طور پر صدر یحییٰ خان کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا اور جنرل گل حسن سے فوج کی قیادت سنبھالنے کو کہا۔ اس کے بعد، انھوں نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے 44 سینئر افسران کو برطرف کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ “وہ موٹے ہو گئے ہیں اور ان کے پیٹ باہر آ گئے ہیں۔”
مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد پاکستانی فوج کمزور ہو چکی تھی، اور بھٹو نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ لیکن جلد ہی، جنرل گل حسن بھی بھٹو کی نظر میں غیر مقبول ہو گئے، اور انھیں ایک ایسے آرمی چیف کی ضرورت پڑی جو ہر حکم پر بلاچون و چرا عمل کرے۔

اوون بینٹ جونز اپنی کتاب The Bhutto Dynasty: The Struggle for Power in Pakistan میں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے گل حسن کی برطرفی کا حکم اپنے اسٹینوگرافر سے نہیں، بلکہ ایک سینئر ساتھی سے ٹائپ کروایا۔ بھٹو نے اپنے قابلِ اعتماد ساتھی غلام مصطفی کھر کو گل حسن کے ساتھ لاہور روانہ کر دیا تاکہ وہ کسی سے رابطہ نہ کر سکیں جب تک ان کے جانشین کا تقرر نہ ہو جائے۔
پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی بےعزتی
اقتدار میں آتے ہی بھٹو کا رویہ سخت اور بے لچک ہوتا گیا۔ انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی نظرانداز کرنا شروع کر دیا، حتیٰ کہ وہ پارٹی کے سینیئر اراکین کی بھی سرعام توہین کرنے لگے۔
سٹینلے وولپرٹ اپنی کتاب Zulfi Bhutto of Pakistan میں لکھتے ہیں کہ 2 جولائی 1974 کو بھٹو نے صدارتی امور کے وزیر جلال الدین عبد الرحیم (جے رحیم) اور دیگر سینیئر ساتھیوں کو عشائیے پر مدعو کیا۔ عشائیے کا وقت 8 بجے مقرر تھا، مگر میزبان بھٹو خود وہاں دیر سے پہنچے۔ جب رات کے 12 بج گئے، تو جے رحیم نے میز پر گلاس رکھ کر کہا:
“تم سب جب تک چاہو لاڑکانہ کے مہاراج کا انتظار کرو، میں تو اپنے گھر جا رہا ہوں۔”

جب بھٹو کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے سکیورٹی چیف کو حکم دیا کہ جے رحیم کے گھر جا کر انھیں زدوکوب کیا جائے۔ سکیورٹی اہلکاروں نے جے رحیم کو اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ جب ان کے بیٹے سکندر نے مداخلت کی کوشش کی تو اسے بھی بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ضیاالحق کی تقرری: ایک غلطی جو مہنگی پڑی
جب جنرل ٹکا خان کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کو آئی تو انھوں نے بھٹو کو اگلے آرمی چیف کے لیے سات ممکنہ ناموں کی فہرست دی، جس میں جان بوجھ کر جنرل ضیاء الحق کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ انھیں حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ مگر بھٹو نے انہی کو آرمی چیف مقرر کر دیا۔
بھٹو کو ضیا کی چاپلوسی پسند تھی۔ کئی مواقع پر، جنرل ضیا نے بھٹو کی خدمت میں تلوار پیش کی اور انھیں فوجی اعزازات سے نوازا۔ حتیٰ کہ انھوں نے بھٹو کے لیے خصوصی فوجی وردی بھی تیار کروائی۔
سٹینلے وولپرٹ لکھتے ہیں کہ بھٹو کبھی ضیا کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے اور اکثر ان کے دانتوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ایک مشہور واقعے کے مطابق، جب ضیا ایک بار بھٹو کے دفتر میں سگریٹ پی رہے تھے، تو بھٹو کے کمرے میں آتے ہی انھوں نے گھبراہٹ میں جلتی ہوئی سگریٹ اپنی جیب میں رکھ لی، جس سے ان کے کپڑوں میں آگ لگنے کی بو آ گئی۔ بھٹو نے سوچا کہ جو شخص ان سے اتنا ڈرتا ہے، وہ کبھی ان کے خلاف بغاوت نہیں کرے گا۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور بھٹو کی غلط حکمتِ عملی
7 مارچ 1977 کے انتخابات میں، پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 200 میں سے 155 نشستیں جیتنے کا اعلان کیا، جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو صرف 36 نشستیں ملیں۔ لیکن عوام نے ان نتائج کو مسترد کر دیا اور ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔
اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لیے، بھٹو نے مخالفین کے ساتھ مذاکرات میں فوج کو شامل کر لیا۔ یہ ان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوئی، کیونکہ فوجی قیادت نے اس عمل کو بھٹو کی کمزوری سمجھا اور نتیجتاً 5 جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ اور سزائے موت
مارشل لا کے بعد، بھٹو کو سیاسی حریف محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت میں ایک سرکاری گواہ نے بیان دیا کہ بھٹو نے قتل کا حکم دیا تھا۔
وکٹوریہ سکو فیلڈ اپنی کتاب Bhutto: Trials and Execution میں لکھتی ہیں کہ ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت کرنے والے جج، مولوی مشتاق حسین، بھٹو سے ذاتی عناد رکھتے تھے اور انھیں سخت سزا دینے کے خواہاں تھے۔
بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، مگر 4-3 کے فرق سے ان کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔ دنیا بھر کے رہنماؤں، بشمول سعودی عرب کے شاہ خالد، چین کے رہنما ہوا گیوفینگ، اور برطانیہ کے وزیراعظم جیمز کیلاگھن نے ان کی سزا معاف کرنے کی درخواست کی، مگر جنرل ضیا نے تمام اپیلیں مسترد کر دیں۔
1 اپریل 1979 کو جنرل ضیاء الحق نے سرخ روشنائی میں تین الفاظ لکھے:
“Petition is Rejected” (درخواست مسترد کی جاتی ہے).
اپریل 1979 کو، ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔