بابر اعظم کے شاندار کیریئر کا ایک اور باب اس وقت کھلا جب ایک غیر متوقع گیند نے انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں ایک اہم موقع پر ناکامی سے دوچار کیا۔ بابر اعظم کی سلیٹ میں یہ گیند غیرمتوقع طور پر ایک وکٹ کے طور پر آئی، اور یہ وکٹ بھی وہ جسے پورا کرنی چاہیے تھا، یعنی بابر اعظم جیسے عظیم بلے باز کی۔ مپھاکا کی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کرنا بلاشبہ ایک شاندار لمحہ تھا، لیکن وہ وکٹ بھی بابر اعظم کی طرح ایک عظیم کھلاڑی کی نہیں ہونی چاہیے تھی۔
دوسری شام، جب پاکستان کا ٹاپ آرڈر دباؤ میں تھا، تو بالآخر بابر اعظم اور محمد رضوان کی تجربہ کار شراکت داری نے ٹیم کو مشکلات سے نکالنے میں مدد کی۔ جنوبی افریقی پیسرز کے آگے کچھ سہارا دینے کی ضرورت تھی، اور اس میں بابر اعظم کی بیٹنگ نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی مہارت اور استقامت نے پاکستان کے بیٹنگ لائن کو فیلڈ میں بہتر ردعمل دینے کی طاقت دی۔
بابر اعظم کے لیے چیلنج یہ تھا کہ اس طرح کے حالات میں بلے بازی کرنا، جب ٹیم پر بورڈ پریشر اور ایک کھلاڑی کی انجری کا اثر ہو، یہ کسی کے لیے بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن بابر اعظم اور رضوان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے اس مشکل صورتحال میں سٹرونگ پوزیشن حاصل کی۔
تیسری صبح، جنوبی افریقی گیندباز ربادا اور یانسن نے بابر اعظم کا رستہ روکنے کی کوشش کی، مگر ان کی میچ وِزاری نے ثابت کیا کہ بابر اعظم کی فارم اس وقت جنوبی افریقی بولرز کے لیے ایک خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جب بابر اعظم نے اپنی دوسری نصف سینچری مکمل کی، تو یہ لگ رہا تھا کہ وہ جلد ہی ایک اور عظیم اننگز کھیلنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
لیکن پھر مپھاکا کی وہ گیند آئی جس نے بابر اعظم کی روانی کو روک دیا۔ ایک تجربہ کار بلے باز کے لیے اس گیند پر نظر انداز کرنا ایک ضروری فیصلہ تھا، مگر بابر اعظم کا یہ فیصلہ، جو ایک ون ڈے یا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں قابل فہم ہوتا، اس وقت ٹیسٹ کرکٹ میں واضح طور پر غیر متوقع تھا۔
نیولینڈز کی پچ پر، جہاں چار بلے بازوں کے لیے سینچری بنانا بھی ممکن تھا، بابر اعظم کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ اگر وہ اس موقع کا صحیح فائدہ اٹھاتے تو وہ نہ صرف اس میچ کی تقدیر بدل دیتے، بلکہ تاریخ میں اپنی ایک عظیم اننگز کے ساتھ امر ہو جاتے۔
آخرکار سینچورین پارک میں فتح کی دھندلی سی امید میں بابر اعظم کا یہی احساس تھا کہ اگر وہ دوسری اننگز میں اپنا قیمتی موقع نہ گنواتے تو شاید جنوبی افریقا کے لیے واپس میچ میں آنے کا دروازہ کبھی نہ کھلتا۔ بابر اعظم کی محنت اور صبر کے باوجود، یہ موقع گزرنے کا غم ان کے لیے ہمیشہ موجود رہ گا۔